علی اعجاز مرحوم کی پانچویں برسی اور ممتاز بیگم کو خصوصی ٹریبیوٹ

خواجہ آفتاب حسن

کسی بھی پروگرام کی کامیابی اگر آرگنائزر کی مرہون منت ہوتی ہے تو بہت حد تک اسے کامیاب بنانے میں میزبان کا بھی ہاتھ ہوتا ہے۔اور اگر میزبان ،آرگنائزر بھی ہو تو سونے پے سہاگہ کے مصداق اسے اپنے پروگرام کو کامیاب بنانے کے لیے کسی کی محتاجی نہیں ہوتی ۔ڈاکٹر ایم ابرار لاہور کے ثقافتی و ادبی حلقوں میں ایونٹس کے انعقاد کے حوالے سے اچھی شہرت کے حامل ہیں۔بزم انجم رومانی پاکستان کے زیر اہتمام طویل عرصہ سے الحمراء آرٹس کونسل کی ادبی بیٹھک ہو یا مال روڈ کا تاریخی پاک ٹی ہاﺅس ہر ہفتے ڈاکٹر ایم ابرار باقاعدگی سے پروگرام کا انعقاد کر رہے ہیں ۔پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگویج ،آرٹ اینڈ کلچر میں بھی بزم انجم رومانی پاکستان کے زیراہتمام گاہے بگاہے تقریبات ہوتی رہتی ہیں۔ ڈاکٹر ایم ابرار کی پاکستان فلم انڈسٹری بالخصوص سدا بہار اداکار علی اعجاز مرحوم اور اداکار حبیب مرحوم سے محبت ڈھکی چھپی نہیں، دونوں مرحومین کی سالگرہ ہو یا برسی ڈاکٹر ایم ابرار اپنی تنظیم کے زیر اہتمام تقریبات باقاعدگی سے کرواتے ہیں۔ایسی ہی ایک تقریب سوموار 18دسمبر 2023 کو الحمرا ءکی ادبی بیٹھک میں منعقد کی گئی ۔لاہور آرٹس کونسل ،علی اعجاز لورز کونسل اور بزم انجم رومانی پاکستان کے اشتراک سے یہ تقریب سدا بہار اداکار علی اعجاز مرحوم کی پانچویں برسی کے حوالے سے تھی لیکن اسے علی اعجاز مرحوم کی ہیروئن ماضی کی اداکارہ ممتاز کو خصوصی ٹریبیوٹ کے طور پر منایا گیا ۔اس موقع پر علی اعجاز اورممتاز پر فلمائے گئے فلمی گیتوں کو پراجیکٹر پر دکھایا گیا۔

اداکارہ ممتاز جو ان دنوں اپنے صاحبزادے ذیشان راحیل کے ہمراہ پاکستان آئی ہوئی ہیں ۔تقریب سے ایک روز قبل انہوں نے اپنے صاحبزادے ذیشان راحیل ، اداکارہ دردانہ رحمان اور ڈاکٹر ایم ابرار وغیرہ کے ہمراہ ملتان روڈ پر واقع باری سٹوڈیوز کا دورہ کیا اور اپنے شوہر راحیل باری سے ان کی رہائش گاہ واقع علامہ اقبال ٹاﺅن ملنے کی کوشش بھی کی تاہم یہ ملاقات نہ ہوسکی ۔راحیل باری کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ ان دنوں خاصے علیل ہیں اوران کی بینائی بھی بہت متاثر ہوئی ہے ۔لاہور میں ممتاز بیگم کی موجودگی کافائدہ اٹھاتے ہوئے ڈاکٹر ایم ابرار نے اس خصوصی تقریب کا انعقاد کیا ،اور اسے ممتاز بیگم کو ٹریبیوٹ کے حوالے سے یادگار بنانے کی کوشش کی تاہم ممتاز بیگم ایک روز قبل اپنے شوہر سے ملنے کی کوشش کے موقع پر ہونے والی بدمزگی کے باعث اس میں شرکت نہ کر سکیں۔ ادبی بیٹھک میں عموماً تقریبات کا ایک آدھ گھنٹے تاخیر سے شروع ہونا معمول ہے ،مہمانان خصوصی کی تاخیر سے آمد اس کی بڑی وجہ ہوتی ہے ۔ساڑھے چار بجے شام شروع ہونے والی یہ تقریب بھی سوا پانچ بجے کے قریب شروع ہوئی ۔ہدایتکار سیدنور، پرائیڈ آف پرفارمنس رقاصہ زرین پنا ، ماضی کی اداکارہ دردانہ رحمان ،لیجنڈری اداکار ، پرائیڈ آف پرفارمنس راشد محمود، سینئر شوبز صحافی ساجد یزدانی مہمانان خصوصی کی حیثیت سے شریک تھے ۔ڈاکٹر ایم ابرار نے نظامت کے فرائض انجام دیے اور علی اعجاز مرحوم اور ممتاز بیگم کی فلموں کے حوالے سے تفصیلات شیئر کیں ۔ڈاکٹر ایم ابرار نے سید نور اور علی اعجاز کی دوستی کا بہ طور خاص ذکر کیا اور بتایا کہ فلم ”چور مچائے شور“ میں سید نور نے علی اعجاز کی سلور سکرین پر واپسی ممکن بنائی ،اگرچہ یہ فلم ”سوہراتے جوائی “کا ری میک تھی لیکن اس نے بھی ”سوہرا تے جوائی “کی طرح زبردست کامیابی حاصل کی اور یوں علی اعجاز کا فلمی دنیا میں شاندار کم بیک ہوا ۔انہوں نے راحیل باری سے ملاقات کی کوشش کے دوران ممتاز بیگم کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ جس لاہورنے ممتاز کو سر آنکھوں پر بٹھایا آ ج وہی لاہور انہیں واپس جانے پر مجبور کر رہا ہے۔

پرائیڈ آف پرفارمنس زرین پنا نے علی اعجاز کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ علی اعجازکی جگہ کوئی نہیں لے سکتا ، بہ طور علی اعجاز کا ڈنکا بج رہا تھا اورآج اس تقریب میں ان کی محبت کا ڈنکا بج رہا ہے ۔ماضی کی اداکارہ دردانہ رحمان نے بھی علی اعجاز مرحوم کے ساتھ اپنی یادوں کو شیئر کیا ۔انہوں نے بتایا کہ میں نے علی اعجاز کے ساتھ کئی فلموں میں کام کیا ،اور آج یہاں ان کے ساتھ فلمائے گئے گیتوں کو دیکھ کر اس دور کی یادوں نے مجھے گھیر لیا ہے ۔ علی اعجاز سلورسکرین کے سٹار تھے ،میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ہدایتکار سید نور نے کہا ”میں آج کی تقریب کے انعقاد پر ڈاکٹر ایم ابرار کو مبارکباد دیتا ہوں کہ انہوں نے ہمارے دوست علی اعجاز اور ممتاز بیگم کے لیے شاندار تقریب سجائی ۔ میری علی اعجاز کے ساتھ دوستی ہدایتکار بننے سے پہلے کی تھی ۔کبھی سوچا نہیں تھا کہ ہم دونوں ایک ساتھ اتنا کام کر پائیں گے ۔میں فلم ”سجن بے پرواہ “کا اسٹنٹ ڈائریکٹر تھا اور علی اعجاز اس میں ایک ثانوی سارول کر رہے تھے ،ایک روز بریک کے دورن ہم اکٹھے بیٹھے تو علی اعجاز نے کہا کہ یار شاہ جی ،کدی میں وی ہیرو بناں گا، دل چاہتا ہے ہیرو بنوں لیکن کیا کروں چانس نہیں ملتا ۔اس وقت میں نے ان سے وعدہ کیا کہ جب بھی مجھے بہ طور ڈائریکٹر موقع ملا آپ کے لیے کچھ ضرور کروں گا ۔ غالباً یہ 76ء کی بات ہے ،میں اس دور میں اردو فلمیں لکھ رہا تھا ،ایک روز میں نے ریاض بٹالوی کا ایک فیچر پڑھا ،جس کے بعد میں نے فلم ”دبئی چلو “ لکھی ،میں اسے لے کر علی اعجاز کے پاس ان کے گھر وحدت روڈ چلا گیا ، اس فلم بار ے ڈسکس کیا اور کہا کہ میں اس کے لیے فنڈز کا انتظام کرتا ہوں ،تم ہیرو ہو گے اور میں اسے خود ڈائریکٹ اور پروڈیوس کروں گا۔ میرے آنے کے بعد ہدایتکار حیدر چودھری کی علی اعجاز سے ملاقات ہوئی اور اس نے میری کہانی کا ان کے ساتھ تذکرہ کردیا ،مجھے حیدر چودھری کا فون آیا اور کہانی بارے بات کی ، مجھے بڑا غصہ آیا کہ علی اعجاز نے حیدر چودھری سے اس فلم بارے کیوں بات کی ،اس پر میری ان سے کافی عرصہ ناراضی بھی رہی ۔بہ ہرحال حیدر چودھری نے علی اعجاز کو ہیرو لے کر فلم ”دبئی چلو “بنائی اور وہ ہٹ ثابت ہوئی ۔فلمی ناقدین نے اس فلم کی کامیابی کو وقتی قرار دیا اور علی اعجاز کو بہ طور ہیرو دل سے تسلیم نہیں کیا لیکن اگلی فلم ”سوہر اتے جوائی “کی کامیابی نے علی اعجاز کو بہ طور ہیرو کنفرم کر دیا ،اس فلم میں ننھا کا ادا کردہ رول بعد میں علی اعجاز نے میری فلم ”چور مچائے شور “میں ادا کیا اور یہ فلم سپرہٹ ثابت ہوئی “۔سیدنور نے بتایا کہ علی اعجاز اور ننھا نے اپنی آڈینس بنائی اور سلطان راہی کے برابر فلمیں کیں ،بدقسمتی سے یہ سلسلہ آہستہ آہستہ زوال پذیر ہو گیا۔

پرائیڈ آف پرفارمنس ،لیجنڈری اداکار راشد محمود نے اظہا رخیال کرتے ہوئے کہا کہ علی اعجاز اب بھی ہمارے ساتھ ہیں اور ہمیشہ ساتھ رہیں گے ۔میرا اور علی اعجاز کا طویل ساتھ رہا ،ہم دونوں نے کئی ٹی وی ڈراموں میں اکٹھے کام کیا ،وہ ایک کھرے آدمی تھے ،انہوں نے ہمیشہ ایک وقار کے ساتھ کام کیا ،ان کی زندگی کے آخری دنوں میں ایک دکھ تھا جس نے انہیں جینے نہیں دیا ،وہ فلم انڈسٹری کے سٹار تھے ،جب بھی پاکستان فلم انڈسٹری کی تاریخ لکھی جائے گی علی اعجاز کا نام سب سے پہلے ہو گا ۔ سینئر صحافی ساجد یزدانی ، راجا ریاض اور دیگر نے بھی خطاب کیا اور علی اعجاز مرحوم کو خراج عقیدت پیش کیا ۔مقررین نے علی اعجاز اور ممتاز بیگم کی جوڑی کو فلمی دنیا کی کامیاب ترین جوڑی قرار دیا۔ تقریب کے اختتام پر دردانہ رحمان نے ممتاز بیگم کا ایوارڈ وصول کیا۔ تقریب کے دوران بدنظمی بھی دیکھنے میں آئی، دوران تقریب شرکاء بار بار مہمانوں کے ساتھ تصاویر بنوانے اور مصافحہ کرنے کے لیے سٹیج پر آتے رہے جبکہ بہت سے افراد دوران تقریب ہی ڈائس پر کھڑے ہو کر اپنی ویڈیو اور تصاویر بھی بنواتے رہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں